مندرجہ ذیل رپورٹ مجھے internet سے ملی تھی ۔ معلومات کے حوالے سے اچھی ہے۔ مگر میرا اس کے مصنف یا اس کے مجلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
محمد خورشید اشرف
__________________________________________

زیر نظررپورٹ مجلہ الحرمین نومبر، دسمبر2010 اور فروری2011 کے شمارہ جات میں سلسہ وار شائع ہوئی۔ جو کہ یونیکوڈ کی صورت میں آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
مسلمانوں کو یورپ کی امیگریشن کیسے ملتی ہے؟
ضمیر و ایمان کو پارہ پارہ کرنے والی ایک چشم دید اور دلخراش رپورٹ

آج کل کسی بھی اخبار پر نظر ڈالیں،تقریباًہر ایک میں کافر مغربی کی شہریت(Immigration)کے متعلق اشتہار پڑھنے کو ضرور ملتا ہے۔ان میں امریکا ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، یورپ جانا نہایت ہی آسان لکھا جاتا ہے۔امیگریشن اور کام کی گارنٹی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔کیا واقعی ان ملکوں میں جانا،جاب کرنا،شہریت حاصل کرنا آسان ہےاور اگر ہے تو کس قیمت پر؟

زیر نظر مضمون میں تمام ملکوں کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے، میں صرف یورپ کے حوالے سے چند اہم نکات پیش کروں گا کیونکہ سب سے زیادہ لوگ یورپ کا ہی رخ کرتے ہیں۔میں یورپ میں15سال لیگل شہری رہا ہوں۔ان تمام معاملات سے میرا گہرا واسطہ پڑا ہے اور انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ اس حوالے سے میں چند تلخ حقائق مسلم نوجوانوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل انہیں ذہن میں رکھ لیں۔یورپ جانے والوں کی عام طور پر درج ذیل قسمیں ہیں۔

1۔ایمبیسی وقونصل خانہ سے متعلقہ عملہ۔
2-فوج،سکیورٹی ادارے اور پولیس وغیرہ کی ٹریننگ کے سلسلہ میں جانے والے افسران۔
3-مختلف سرکاری وغیرسرکاری وفود۔
4-محکمہ خارجہ اور بینکنگ سے متعلقہ افسران و ملازمین۔
5- برنس ٹور پر جانے والے مخصوص علمائے کرام۔
6- ٹورسٹ و سیر و تفریح، فلموں اور کھیلوں سے متعلقہ لوگ۔
7- سٹوڈنٹ اور تعلیم و تعلم سے متعلقہ لوگ۔
8- مختلفN.G.O.s کے نام پر مال بٹورنے والےاور اپنے ملک کی فرضی تصویر بنا کر لے جانے والے۔
9-کفار کے خاص ایجنٹ جو کے سیاسی و مذہبی پارٹیوں سے بھی ہوتے ہیں۔
10- جاسوس جو اپنے ملک کے راز دیتے اور اسلام کے خلاف اپنے کام کی رپورٹ دیتے اور نئے احکامات لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ قاتل،کرپٹ،باغی،دہشت گرد(حقیقی)وغیرہ بھی اس فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کو ویزا ملنا مشکل نہیں۔اکثر کے پاس تو ملٹی پل (کثیرالمملکتی) ویزا ہوتا ہے۔یورپ کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ان میں اکثر اپنا وقت عیاشی،بدمعاشی میں صرف کرتے ہیں یا کم از کم بقول ان کے اپنی آنکھیں ہی ٹھنڈی کر لیتے ہیں۔کسی گوری سے ہاتھ پنجہ کر لینے ہی سے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنی سعادت جانتے ہیں۔درمیانہ طبقہ زیادہ تر مزدوری وغیرہ کے لیے جاتا ہے۔(دیگر لوازمات کا آگے ذکر آئے گا)بعض غریب لوگ بھی کسی نہ کسی طرح لاکھوں خرچ کر کے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ معاشی حالات ٹھیک ہو جائیں۔ایک مخصوص سوچ کے لوگ جو کہ ہر طبقہ سے ہوتے ہیں،ہر وقت سوتے جاگتے یورپ کے سہانے خواب دیکھتے ہیں۔24گھنٹے ان کا زیادہ وقت یورپ کے موضوع پہ صرف ہوتا ہے۔شیشے جیسی سڑکیں، بسوں، گاڑیوں میں لیڈیز ڈرائیور،خوشبوؤں سے بسی مارکیٹیں، ننگی گوریاں اور دیگر خرافات کا انہیں چسکا ہوتا ہے۔ایسی سوچ کے لوگوں کو یورپ کا نشہ چڑھا ہوتا ہے۔جب تک یورپ پہنچ کر سور کے گوشت والی پلیٹیں نہ دھو لیں، شراب والے گلاس نہ صاف کر لیں، ان کا نشہ نہیں اترتا، یہ لوگ ہر وقت آہیں بھرتے رہتے ہیں کہ کیسے یورپ پہنچ جائیں۔اپنے ماحول سے آزادی مل جائے۔کوئی پوچھنے والا، روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔یہ لوگ یورپ پہنچ کراتنے خوش ہوتے ہیں کہ برملا کہتے ہیں کہ چلو شکر ہے کہ اپنے ملک کے مولویوں سے تو جان چھوٹی۔کئی اپنےخیال کو ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کو بھی شکست دے آئے ہیں۔ مجھ سے بہت سے لوگ مشورہ لیتے ہیں کہ یورپ جانا کیسا ہے اور دیگر معاملات بھی۔ انہیں بہت اچھے طریقے سے گائیڈ کرتا ہوں اور مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں۔مگر لوگ کم ہی مشورہ قبول کرتے ہیں۔

یورپ جانے کا پہلا مرحلہ۔جان و مال کی قیمت پر
 
بعض لوگ بڑی مشکل سے لوگوں سے قرضہ لے کر یا اپنا مال متاع بیچ کردو سے چار لاکھ اکٹھا کر کے رخت سفر باندھتے ہیں۔کوئی پانچ سات لاکھ، کوئی دس پندرہ لاکھ بھی خرچ کرنے والے ہیں۔میں سب احباب کو سب سے اچھا مشورہ تو یہی دیتا ہوں کہ بھائی آپ اتنی رقم سے یہاں اپنے ملک میں کوئی کام کر لو۔فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے ماحول،اپنے لوگوں،اپنے خاندان کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے،اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کے کام بھی آتے رہو گے۔اپنے بیوی بچوں کی صحیح تربیت کرو گے اور سب سے اہم کہ آپ اپنا دین بھی بچا سکتے ہیں۔یورپ پہنچنے کے نقصانات کا ذکر تو آگے آئے گا، پہلے سفر کی مشکلات ہی ملاخطہ کریں۔

دو چار لاکھ خرچ کرنے والے کچھ رقم ایجنٹ کو دے دیتے ہیں۔کچھ بائی روڈ خرچ کر کے مشکل سے ایران وتر کی پہنچ پاتے ہیں۔ بہت سے لوگ زیارات مقدسہ کی آڑ میں ایران اور ترکی کا ویزا لگواتے ہیں اور ویزا اوورڈیٹ ہونے پر ایران یا ترکی سے پاکستان ڈیپورٹ ہو جاتے ہیں۔ترکی سے یونان کا بارڈر کراس کرنا خاصہ مشکل مرحلہ ہے۔بارڈر فورس والے بغیر وارننگ کےبھی گولی مار دیتے ہیں۔آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے۔پانچ یا سات لاکھ خرچ کرنے والے ایجنٹوں کو دے دلا کر چور راستوں سے رسک لے کر یونان پہنچ جاتے ہیں۔یہ بھی سب اس شرط پہ کہ ایجنٹ مخلص ہو،ورنہ ایجنٹ ہی رقم کھا کر بھاگ جاتے ہیں۔اکثر کا یہی حال ہوتا کہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ یاد رہےکہ ترکی اور یونان کے بارڈر پہ خطرناک پہاڑی سلسلے ہیں۔بے شمار لوگ راستہ بھول جانے کی وجہ سے پہاڑوں میں پھنس جاتے ہیں۔بعض مرتبہ سکیورتی گارڈز کی نظر سے بچنے کے چکر میں راستہ بدلتے ہوئے راستہ بھول جاتے ہیں۔راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہا راستہ کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے پہاڑوں میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا ہے۔بھوک اور پیاس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر لوگ جان دے دیتے ہیں،کئی لوگوں کے ڈھانچوں کی تصاویر اخباروں میں آئیں۔جنگلی جانوروں کے حملہ کی وجہ سے بھی لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔یہ ہے یورپ جانے کا پہلا مرحلہ اور اس کا نتیجہ۔

بعض لوگ تقریباً دس لاکھ خرچ کر کے بغیر کسی تکلیف کے بائی ائیر بھی یونان پہنچ جاتے ہیں۔ یونان اصل منزل نہیں۔ اصل منزل تو وسطی یورپ کے امیر ممالک فرانس،سپین اور جرمنی وغیرہ ہیں۔یونان یورپ کے غریب ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔وہاں مزدوری کم ہے۔یونان پہنچنے والے وسطی یورپ جانے کے لیے100فیصد لوگ کوشش کرتے ہیں۔مگر 50فیصد لوگ وسطی یورپ پہنچ جاتے ہیں،وجہ کیا ہے؟یونان سے وسطی یورپ جانے کے لیےچونکہ سڑک کا سفر بہت طویل ہے،اس لیے بائی ائیر یا بائی سی(سمندر)جانا پڑتا ہے۔بائی ائیر غیر قانونی جانا یا دو نمبر پاسپورٹ پہ جانا مشکل ہے تو اس لیے سب لوگ چوری چھپے سمندر کا سفر اختیار کرتے ہیں۔اٹلی کے مختلف شہر بھی سمندر کے ساتھ لگتے ہیں۔درمیان میں میلوں سمندر ہوتا ہے۔انسانی سمگلر لوگوں کو اپنی مرضی کے ریٹ پر کشتیوں،لانچوں کے ذریعے سمندر کراس کرواتے ہیں۔کراسنگ بھی مکمل نہیں اٹلی کی سی سائیڈ پر سکیورٹی سختی ہے۔وہ بھی بے دریغ لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔انسانی سمگلر اپنی سیفٹی کے مد نظر ساحل سے دور ہی لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ ساحل کا کنارہ آ گیا ہے۔پانی کم ہے چھلانگیں لگا دو اور کنارے پہ چل کر پہنچ جاؤ۔لوگ مجبوراً یا ا ن کی باتوں میں آ کر پانی میں کود جاتے ہیں کودنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ پانی تو بہت گہرا ہے۔جب پاؤں ریت پر نہیں لگتے تو ہر کوئی ڈوبنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔کم ہی لوگ تیراکی کر کے کنارے لگتے ہیں۔باقی سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ان کی تکلیفیں آگے ذکر ہوں گیں۔سمندر میں مرنے والوں کی بھی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔

ایسے لوگ بھی ہیں جو بہادر بنتے ہوئے کنٹینروں میں بند ہو کر بارڈر کراس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ پانی خوراک وافر مقدارمیں ساتھ رکھتے ہیں۔بول و براز کےلیے شاپنگ بیگ استعمال کرتے ہیں اور کھانا کم سے کم سے کھاتے ہیں تا کہ بول و براز کی پریشانی کم سے کم ہو۔ٹرالوں پر جب کنٹینر جا رہے ہوتے ہیں،اس وقت اندر بند لوگ اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے اور آکسیجن کی بھی اتنی پرابلم نہیں ہوتی،مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ کسی وجہ سے زیادہ دن سی پورٹ پہ رکے رہیں اور لوڈ نہ ہوں۔اس صورت میں لوگ اندر ہی مر جاتے ہیں۔جو کنٹینرز بمہ ٹرالہ بحری جہازوں پر لوڈ ہوں،ان میں لوگ بچ بھی جاتے ہیں۔ جیسے جیسے حکومتوں کو ان دو نمبر کاموں کا پتہ چلتا ہے،وہ بھی اس کا حل نکالنے لگتے ہیں۔مثلاً کتوں کی مدد سے اور جدید سائنسی آلات کے ذریعے جو کہ بند جگہوں میں انسانوں کے موجود ہونے کا بتاتے ہیں۔یہ حال ہے یونان اور اٹلی کے ساحلی بارڈرز سے وسطی یورپ جانے والوں کا۔ اس کے علاوہ خشکی کے راستوں سے بھی کئی غریب مشرقی یورپین ممالک سے گزر کر وسطی یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔متعدد ملکوں سے گزرنے کا رسک بھی لوگ نہیں لیتے،خاص کر اس صورت میں جب سفری دستاویزات (کاغذات)ادھوری ہوں۔

زندہ سلامت یورپ پہنچنے کے بعد امیگریشن کی قیمت
 
ہاں بعض لوگ پندرہ لاکھ سے اوپر روپیہ خرچ کر کے ویزا حاصل کرتے اور سیدھا بائی ائیر وسطی یورپ پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان سے فلائی کرنے سے پہلے خوش ہوتے ہیں کہ نہ تو راستے کی تکلیفیں اٹھانا پڑیں نہ ہی بارڈر فورس کی گولیوں کا نشانہ بنےاور نہ ہی سمندر میں غوتے کھا کھا کر جان دی اور اب جاتے ہی کام بھی مل جائے گا۔یہ بات تو ٹھیک ہے کہ پندرہ بیس لاکھ خرچ کر کے بغیر تکلیف برداشت کیے یورپ پہنچ جاتے ہیں مگر کام ملنے والی گارنٹی غلط ہے۔ہاں کسی کے عزیز رشتہ دار یا یار دوست اس کو چوری کام دے دیں،فیکٹری کے اندر یا ریسٹورنٹ کے اندر برتن وغیرہ صاف کرنے پہ لگا دیں اور جیسے ہی پولیس کا چھاپہ پڑے تو دائیں بائیں ہو جائیں،یعنی لیگل (قانونی)کام اس وقت تک نہیں ملتا جب تک کسی کو شہریت نہ مل جائے جو کہ بہت مشکل ہے۔اور یہ جس قیمت پر ملتی ہے،اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

یورپ میں کچھ لوگ تو ویزا لے کر جاتے ہیں۔بہت سے لوگ دائیں بائیں ملکوں سے بارڈر کراس کر کے غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ان سب کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے،وکیل کے ذریعے پولیس اسٹیشن میں انٹری ڈلوائیں۔انٹری ڈلوانے سے پہلے اگر پولیس کے ہاتھ لگ گئے،چیکنگ وغیرہ میں تو سیدھا اپنے ملک ڈیپورٹ کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ بغیر ویزا کے تسلیم کیے جاتے ہیں۔پولیس اسٹیشن میں انٹری دلوانے والا ہر شخص سیاسی سٹے(سیاسی پناہ)کا کہتا ہے۔یعنی میں اپنے ملک سے بھاگا ہوں۔میری جان کو فلاں فلاں سرکاری یا غیر سرکاری لوگوں سے خطرہ ہے۔آپ کا ملک مجھے انسانیت کے بنیادی حقوق کی وجہ سے رہنے کی اجازت دے۔تفصیل آگے آ رہی ہے۔

پولیس اسٹیشن والے اس کے وکیل کے دئیے ہوئے فارم پر اسٹمپ لگا دیتے ہیں ۔فارم پہ نام اور میزبان کا ایڈریس لکھا ہوتا ہے۔ خط و کتابت کے لیے پولیس والے کہتے ہیں کہ جلدی اپنا کیس وزارت داخلہ میں جا کر درج کرواؤ۔سائل وزارت داخلہ کے سب آفس میں تاریخ لے لیتا ہے۔اس تاریخ پہ جا کر سیاسی سٹے کی بنیاد پر شہریت کے لیے اپلائی کر دیتا ہے۔آفس والے اس کے کاغذات مکمل ہونے پر اسے ایک ورقہ(وی سی پی سی)دے دیتے ہیں جس پر اس کی تصویر وغیرہ ہوتی ہے۔جب تک کیس کا فیصلہ نہ ہو جائے،یہ کارڈ تین تین ماہ کے بعد رینیو ہوتا رہتا ہے۔ اس کارڈ کا مخصوص رنگ ہوتا ہے۔اسے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔جس کسی کے پاس کام کے لیے جائے گا،وہ شناخت مانگے گا۔یہ شخص جیسے ہی کارڈ نکالے گا،اس کے کارڈکے رنگ سے کام دینے والا سمجھ جائے گا کہ اسے کام کی اجازت نہیں۔وہ انکار کر دے گا۔تاہم اکثر غیر ملکی رسک لے لیتے ہیں۔اسے چوری چھپے کام دے دیتے ہیں لیکن آدھی تنخواہ کےساتھ مثلاً ایک لاکھ روپیہ کی بجائے اسے چالیس پچاس ہزار کی آفر کریں گے۔اعتراض کرنے پر کہیں گے کہ آپ کو کام بھی تو غیر قانونی دیا ہے۔چھاپہ پڑ گیا تو ہماری کمپنی کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔تم تو زیادہ سے زیادہ صرف ڈیپورٹ ہی ہو گے۔ایسے کام دینے والوں کو مالک مزید بلیک میل کرتے ہیں۔مثلاً لیگل مزدور سے آٹھ گھنٹہ کام تو غیر قانونی کام والے سے دس گھنٹے یا بارہ گھنٹے کام لیتے ہیں۔غیر قانونی کام والا بول بھی نہیں سکتا۔اگر وہ پولیس اسٹیشن جائے تو پولیس الٹا اسے پکڑے گی کہ تو چوری کام کیوں کر رہاتھا۔بعد میں مالک کی باری آئے گی۔ایسے چوری کام کرنے والے پریشان ہی رہتے ہیں۔یا انہیں کام بہت گھٹیا ملے گا۔مثلاً شراب کا یا سور کے گوشت کا یا کسی ریسٹورنٹ کی ٹوائلٹ وغیرہ صاف کرنے کا۔ویسے ایک بات ہے۔بہت سے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو یہ نوکری مل جائے۔تنخواہ بھی زیادہ اور کوڑا کرکٹ سے قیمتی اشیاء بھی مل جاتی ہیں اور کام بھی جلدی جلدی کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔اس محکمہ میں زیادہ تر مسلمان کام کرتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں کرسچین اس کام میں زیادہ ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر سیاسی سٹے حاصل کرنے والا یہ کام نہ کرے تو کھائے پیئے گا کہاں سے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو حکومت ماہانہ مناسب وظیفہ دیتی ہےجن میں ان کا گزر بسر ہو سکتا ہے۔٪99لوگوں کے سیاسی کیس جعلی ہوتے ہیں۔ان میں سے چند ایک کوجو حکومت کے مطلب کے ہوتے ہیں،انہیں شہریت مل جاتی ہے،باقی لوگوں کے کیس مسترد ہو جاتے ہیں اور انہیں ملک چھوڑنے کا کہا جاتا ہے مگر دو اپیل کا حق ہوتا ہے۔ان چکروں میں لوگوں کے سال دو سال گزر ہی جاتے ہیں۔اسی دوران لوگ اپنے آپ کو کہیں سیٹ کر ہی لیتے ہیں۔بہت سے ڈیپورٹ بھی کر دیے جاتے ہیں۔

پولیس کا چھاپہ پڑ جائے تو اس موقع پر بھی لوگ چکر چلا لیتے ہیں۔ جن لوگوں کو سیاسی شہریت مل جاتی ہے، ان کے تمام حقوق اس ملک کے شہریوں کے برابر ہوتے ہیں۔ انہیں جو کارڈ ملتا ہے، اس پہ لکھا ہوتا ہے کہ حامل ھذ ٰا اپنے ملک میں نہیں جاسکتا کیونکہ وہ سیاسی طور پر اپنے ملک کا باغی ہوتا ہے۔ قانون تو یہی ہے مگر بہت سے لوگ چکر چلا کر اپنے ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر کسی وقت عام ایمیگریشن یورپ کا ملک کھولتا ہے تو ان کا کارڈ بھی بدل دیا جاتا ہے۔ پھر اپنے ملک آ جا سکتا ہے۔ صرف اسی موقع پر یورپ میں لوگوں کا ایمیگریشن حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ بہر حال یورپین ملکوں نے یہ فراڈ اپنے مطلب کے لیے بنائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ بعض اوقات انہیں لیبر کی کافی ضرورت ہوتی ہے یا پھر غیر قانونی لوگوں کی کثرت کی وجہ سے انہیں ایک ہی راستہ دیا جاتا ہے۔ خصوصاً جن کی اولاد یہاں پیدا ہو جائے، اصل تفصیل آگے ہے۔
 
جب میں نے امیگریشن کے لیے قادیانی وغیرہ بننے سے انکار کر دیا
میرے حوالے سے بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ اتنی مصیبتیں تکلیفیں بتاتے ہیں تو پھر آپ دین دار ہونے کے باوجود کیسے یورپ پہنچ گئے؟ پندرہ سال بھی گزار دیئے۔ بچے بھی سب وہیں پیدا ہوئے۔ اعتراض واقعی بنتا ہے۔

میں مختصر اپنی سرگزشت شہریت لکھتا ہوں۔ اس سے بہت سی معلومات قارئین کو معلوم ہوں گی اور اعتراض کرنے والوں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ میں نے کتنی غلط بیانی کی اور کیا میں نے غلط طریقے استعمال کیے؟ اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے بھائی شہریت لینے کے لیے کیا کیا کچھ کر گزرتے ہیں؟ کون کون سی دین اسلام کی حدیں توڑ دیتے ہیں اور اخلاقی سرحدیں کراس کر جاتے ہیں۔

میری شادی 1987ء میں خاندان سے باہر دین داری کی بنا پر ہوئی۔ میری بیوی کے دس بہن بھائی ہیں۔ 9 بہن بھائی تقریباً 1970ء سے اور بعض اس سے بھی پہلے کے امریکہ و یورپ کے مختلف ملکوں میں رہتے ہیں اور وہاں اچھے سیٹل ہیں۔ یہ سب بزنس مین ، پروفیسر یا ڈاکٹر ہیں۔ میرے ہم زلف بھی سب امریکہ و یورپ میں رہے۔ سب کے پاس شہریت(Nationality) ہے۔ میری بیوی کے بھائیوں نے سوچا کہ ہم سب بہن بھائی باہر ہیں۔ ہماری یہ بہن بہنوئی بھی ہمارے پاس آ جائیں۔ ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا۔ بزنس ویزا لگوانا کوئی خاص مسئلہ نہ تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کو بتایا کہ میرا باہر کا پروگرام ہے، کہنے لگے کہاں؟ میں نے یورپ کا بتایا۔ کہنے لگے کہ کفار کے ممالک میں اپنے دین اسلام کو بچا سکو گے؟ میں نے ان شاءاللہ کہا۔ کہنے لگے، ایک ٹکٹ کا بندو بست ہے یا دو کا۔ میں ان کی بات سمجھ گیا۔ ایک ٹکٹ کے پیسے ہیں۔ دوسری کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔ کہنے لگے، ٹھیک ہے۔ جہاں بھی رہو، میاں بیوی اکٹھے ہی رہو۔ دین اسلام کے معاملے میں والد صاحب کو یقین تھا، میرا بیٹا دین اسلام کو ہاتھ سے جانے نہ دے گا۔ بہر حال ہمارا بزنس کا ویزا لگ گیا۔ میں اور میری بیوی شادی کے ایک سال بعد یورپ پہنچ گئے۔ ہمارے بھائیوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نہ کھانے کی فکر، نہ رہائش کا مسئلہ۔ گھومنے پھرنے کے لیے ہر گھر میں گاڑی موجود ہے۔

چند دنوں کے بعد ہمارے بھائیوں نے کہا کہ کسی دن امیگریشن آفس (وزارت داخلہ) جانا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے کہ تمہارے لیے شہریت کی درخواست دینی ہے۔ یہ درخواست سیاسی سٹے کہ بنیاد پر ہے۔ میں حیران ہوا اورکہا کہ بھائی جان آپ کی دوکان ہے تو میں نے سوچا تھا کہ جیسے آدمی لاہور سے کراچی چلا گیا یا کوئٹہ سے پشاور چلا گیا، کوئی فکر نہیں، ایسے ہی یورپ میں جا کر دکان پہ بیٹھ جاؤں گا۔ کہنے لگے، نہیں نہیں۔ ایسے نہیں۔ اس کا تو کافی لمبا چوڑا طریقہ کار ہے۔ ہم نے پولیس اسٹیشن میں جا کر انٹری کروائی اور انٹری کارڈ لیا۔ ایک اچھا وکیل بھی ساتھ تھا۔ انٹری لینے کے بعد وزارت داخلہ سے فارم وغیرہ بھی لے آئے۔ جب فارم پُر کرنے لگے تو کئی مسائل سامنے آ گئے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اگر شہریت اپلائی کرنی ہے تو قادیانی کا کیس کرواؤ، اس لیے کہ سب سے زیادہ یہی کیس کامیاب جا رہا ہے۔ اسی پر لوگوں کو زیادہ شہریت مل رہی ہے۔ میں نے وضاحت طلب کی تو بتانے لگا۔ آپ کو شو کرنا ہو گا کہ میں قادیانی ہوں۔ مجھ پہ پاکستان میں مسلمانوں نے قا تلانہ حملہ کیا ہے۔ کئی بار مارا پیٹا گیا۔ ہمارا گھر جلا دیا۔ کار و بار ختم ہو گیا۔ جعلی میڈیکل رپورٹس بھی زخمی ہونے کی لگانی پڑیں گیں۔ کہنے لگا کہ جتنا زیادہ جھوٹ بولو گے، اتنا زیادہ کیس مضبوط ہو گا۔ سٹوری میں خود ہی ترتیب دے لوں گا کیونکہ ہمارے پاس بےشمار قادیانیوں کی سٹوریاں ہیں۔ تھوڑا سا ردو بدل کر کے مقامات بدل کر کیس بنا لیتے ہیں۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ٪50فیصد ایڈوانس دے دو بقایا ساتھ ساتھ دے دینا۔ میں نے کہا کہ میں جھوٹی سٹوری کے ساتھ اور قادیانیوں والا کیس کرواؤں اور آخرت تباہ کر لوں؟ وکیل نے کہا کہ اس سے کون سا آپ کافر بن جاؤ گے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کہ دستخط تو کئی جگہ آپ کو کرنے پڑیں گے اور ایک بار آپ کو حلفیہ بیان بھی دینا ہو گا۔ میں نے استغفار پڑھا اور کہا کہ مجھے منظور نہیں تو وکیل کہنے لگا کہ اور لوگ بھی کیس کرواتے ہیں تو مسلمان ہی رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کا معاملہ اپنا، میرا اپنا ہے۔ پھر وکیل نے مشورہ دیا کہ ANP کا کیس کروا دو۔ میرے سوال کرنے پر کہ اس کی کیا تفصیلات ہیں کہنے لگا کہ آپ نے ظاہر کرنا ہے کہ میں ANP کا سرگرم رکن ہوں۔ ہماری جدوجہد پر امن تھی۔ ہم ملک پاکستان میں سرخ انقلاب کے حامی ہیں۔ 1979ء تا 1989ء تک روسی افواج افغانستان میں رہیں۔ ANP ان کی زبردست حامی تھی۔ حکومت پاکستان خاص کر ضیاءالحق ہمارے سخت خلاف تھے۔ حکومت نے کئی بار ہمیں پکڑ کر جیل میں پھینکا۔ عام مسلمان بھی ہمیں سرخے سرخے کہہ کر تنگ کرتے اور مارتے تھے۔ روس کے افغانستان سے جانے کے بعدہمارے اوپر زیادہ سختیاں شروع کر دی گئیں۔ ہمارے اوپر دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے۔ میں بڑی مشکل سے جیل توڑ کر فرار ہو کر آپ کے ملک (یورپ) پہنچا ہوں۔ انسانی ہمدردی کی بنا پر مجھے یہاں کی شہریت دی جائے۔ وکیل نے مجھے اس سے ملتی جلتی کئی اور سٹوریاں بھی سنائیں کہ جو پسند ہو، وہی کیس میں لے آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ بےشک یہ مسلمان کہلواتے ہیں مگر ان کے مکمل نظریات کمیونسٹوں(کفار) والے ہیں۔ کافی بحث کرنے کے باوجود میں نہ مانا وکیل نے کہاکہ اچھا اب آخری ایک آپشن رہ گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے سیاسی سٹےکی درخواست دے دو۔ اس پر بھی شہریت مل جاتی ہےاور کچھ نہ ہو تو کیس سال دو سال نکال ہی جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کے متعلق بھی آپ کے پاس سٹوریاں موجود ہیں۔ کہنے لگا ہاں ۔ مثلاً آپ نےاپنے کیس میں یہ لکھوانا ہے کہ میرے والد صاحب یا بڑا بھائیPPP کے سرگرم رکن بلکہ عہدے دار تھے۔ جب ہمارے لیڈر بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیاتوPPPنے سخت احتجاج کیا۔ ہمارے اوپر سخت کیس بنائے گئے۔ ملک میں بم دھماکے کرنے اور دہشت گردی کرنے کے الزامات لگے۔ میرے بھائی نے بھی احتجاجاً خود سوزی کی اور اس کا سارا جسم جل گیا اور کچھ دنوں کے بعد میرا بھائی مر گیا۔ والد صاحب بھی جیل میں تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئے۔ میں اکیلا اپنے گھر کا ذمہ دار رہ گیا۔ مجھے بھی پولیس تنگ کرتی تھی۔ جب بھی گھر آتا تو مخبری ہو جاتی اور پولیس ہمارے گھر چھاپہ مارتی۔ عورتوں کی بے حرمتی کرتی۔ کبھی میں ہاتھ آ جاتا، کبھی فرار ہو جاتا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب میں بڑی مشکل سے یورپ پہنچا ہوں تو مجھے اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے دیں اور مجھے واپس پاکستان ڈیپورٹ نہ کریں۔ وگرنہ حکومت مجھے پولیس کے ذریعےمقابلے میں مار دے گی۔ وکیل نے کہا کہ ثبوتوں کی فکر نہ کرو۔ پاکستان میں ہر کام پیسے دے کر ہو جاتا ہے۔ وہاں سے سارے ثبوت مل جائیں گے۔ بہر حال جتنا زیادہ جھوٹ لکھو گے ساتھ اسلام کے خلاف بھی دو چار باتیں لکھ دو گے تو کیس مضبوط ہو جائے گا۔ مثلاً کوڑوں کی سزائیں وحشیانہ ہیں، اسلام میں آزادی نہیں، پردہ وغیرہ فرسودہ رواج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ PPPکے لیڈر اکثر ایسی باتیں کرتے بھی رہتے ہیں۔

میں وکیل کی باتیں سن کر بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔ میں نے اس کا بھی انکار کر دیا تو وکیل بھی حیران اور پریشان ہو گیا۔ غصے سے کہنے لگا، میں نے تمہاری طرح کبھی کسی میں سختی نہیں دیکھی۔ آپ نے تو مجھے بھی چکروں میں ڈال دیا ہے۔ مجھے تو اپنے ہاتھ سے یہ کیس چھوٹتا نظر آ رہا ہے۔ وکیل نے بہت زیادہ افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پیپلزپارٹی وغیرہ شو کرنے سے آدمی ویسا بن تھوڑی جاتا ہے۔ میں نے بے شمار عام لوگوں کو اور خاص کر چند مولویوں کو انہیں کیسوں پر شہریت لے کر دی ہے۔ وہ تو سب مسلمان ہی رہتے ہیں۔ بلکہ وہ مولوی مسلمانوں کی امامت بھی کرواتے ہیں اور بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں۔ میں نے کہا آپ نے مجھے بتایا کہ جو صورت بھی ہو، اس میں بہر حال تحریراً اقرار کرنا ہوتا ہے اور جگہ جگہ دستخط ہوتے ہیں، پھر عدالت میں حلفیہ بیان بھی دینا پڑتا ہے کہ میں اس پارٹی سے ہوں تو پھر کیا بچا۔ وکیل کو غصہ آیا۔ کہنے لگا، تمہارا پروگرام شہریت لینے کا ہے ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ ایسی شہریت سے ہزار بار باز آیا۔
میرے بھائیوں سے کہنے لگا کہ اس ملاں کو آپ نے کہاں یورپ میں بلوا لیا ہے۔ وقت ہی ضائع کر رہا ہے۔ پھر کہنے لگا کہ دیکھوتم تو بڑے خوش قسمت ہوکہ راستے کی بے شمار تکلیفیں اٹھائے بغیربائی ائیر آرام سے یورپ پہنچ گئے ہو۔ نہ کھانے پینے کا مسلہ نہ رہائش کا۔ دوسرے لوگوں کو جا کر دیکھو کہ کیسا کھا پی رہے ہیں اور کیسی گندی رہائشیں ہیں۔ تم یہاں VIPطریقے سے رہ رہے ہو۔ میرے بھائیوں نے مجھے سمجھایا کہ پاکستان میں اپنا کاروبار ختم کر آئے ہو۔ جو پیسے تھے، ٹکٹوں پر لگا دیئے۔ گھر سے بے گھر بھی ہوئے۔ آرام سے یورپ پہنچ کر نا شکری نہ کرو۔ کوئی حل نکالو۔ ایسے تو ٹھیک نہیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تک جو حل سامنے آئے ہیں، یہ تو قطعاً منویر نہیں۔ کہنے لگے کہ سیاسی کیس کے بغیر یہاں زندگی کی ابتدا نہیں ہو سکتی۔ تم ہی بتاؤ کہ کس بنیاد پر تم اس ملک میں رہ سکتے ہو، کسی سیاسی پارٹی کا تو سٹے لینا ہی ہے مگر میں انکار کرتا رہا۔ وکیل نے کہا کہ زندگی میں پہلا کیس ایسا دیکھا ہے کہ جو میری زندگی میں آیا جس نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ میں نے بھی تنگ آ کرکہا، ٹھیک ہے میں واپس اپنے ملک پاکستان چلا جاتا ہوں۔ مجھے ان کفریہ شرائط پہ یورپ رہنا قبول نہیں۔ سب نے کہا کہ اچھی طرح سوچ لو۔ میں نے کہا کہ سوچ لیا ہے اور فیصلہ بھی سنا دیا ہے۔ سب نے مشورہ سے کہا کہ اب اتنی جلدی تو پاکستان واپسی کا بندوبست نہیں ہو سکتا، کم از کم ہفتہ دس دن تو لگ ہی جائیں گے۔ ان فارغ دنوں میں کوئی ترکیب سوچو۔ ہم بھی سوچتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا بھی کرتا ہوں۔ اللہ تعالٰی کوئی اچھی راہ سجھادے۔ استخارہ بھی کروں گا۔

اسلام دشمن گھناؤنی شرائط پوری نٖہ کرنے پر میری امیگریشن کی امید ختم ہوگئ تو اب میں خاصا پریشان ہوگیا۔ اللہ تعالی سے دعائیں بھی کیں۔ اے اللہ!جو میرے دین و دنیا کے لئے بہتر ہے، وہ میرے لیے کر دے۔ استخارہ بھی کیا۔ پھر یہ ارادہ پکاکر لیابلکہ اللہ تعالی سے وعدہ بھی کر لیا کہ اپنا ایمان بیچ کر فرانس کی شہریت نہیں لینی۔یہ دعا بھی کثرت سے پڑھتا------یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِیْنِکَ وَیَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی طَاعَتِکَ------امیگریشن کے حصول کے لئے فرانسیسی افسروں کو بہرحال اپنا کوئی نہ کوئی ایسا کیس دکھاناضروری تھا کہ جس سے یہ کسی طرح ثابت ہو سکے کہ میرا اپنے ملک میں رہنا دشوار ہو گیا۔مجھے یا تو یہ ظاہرکرنا تھا کہ پاکستان میں ملک اور اسلام کےخلاف کوئی بات کرنے پر میرا وہاں رہنا دشوار کر دیا گیا ہے یا اس کے علاوہ کوئی ایسا کیس بن گیا ہے جس کی وجہ سے میری وطن واپسی سے حکومت یا عوام میرا جینادو بھر کر دیں گے۔ملک اور اسلام دشمن سرگرمیوں کے لئے تو کوئی ثبوت دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف اس کا تحریری اقرار کر لینا ہی کافی ہے،خود کو قادیانی یا علیحدگی پسند لکھ دینے سے بات بن جاتی ہے۔ لیکن اگر ان دو کے علاوہ کسی اور وجہ سے اپنے ملک میں رہنا دشوار ہو توپھراس کا حقیقی ثبوت درکار ہوتا ہےلیکن میرے پاس ظاہر ہے ایسا کوئی ثبوت نہ تھا------کم از کم میرے ذہن کے کسی گوشے میں دور دور تک ایسی کوئی بات نظرنہ آتی تھی------واقعہ کے دو چار دن بعد کی بات ہے کہ میں بیٹھا اپنی ڈائری کی ورق گردانی کر رہا تھاکہ ڈائری کی سائیڈپاکٹ سے ایک پیپر ملا،وہ میں نےکھولا تو ایک ایف آئی آر کی کاپی تھی جو کہ پاکستان میں میرے خلاف بنی تھی۔اس کی تفصیل کچھ ایسے ہے۔

1986ءمیں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒودیگر علماء کرام لاہور میں بم دھماکہ میں شہید ہو گئے تھے۔علامہ صاحب کا غائبانہ نماز جنازہ ناصر باغ لاہور میں ادا کیا گیا۔نماز جنازہ کے بعد ایک بہت بڑا منہ زور جلوس پنجاب اسمبلی کی طرف مارچ کر رہا تھا جس میں شر پسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور خاصی توڑ پھوڑ ہوئی۔سارا دن پولیس سے آنکھ مچولی ہوتی رہی۔بہت سے لوگ گرفتار ہوئے۔میں جلوس اور پولیس کے درمیان رابطہ کا سبب بنا ہوا تھا۔کئی جگہ پہ میں نے تصادم کو نہ ہونے دیا اور پولیس سے بھی پُر امن جلوس جاری رہنے کا کہہ رہا تھا۔عصر کے وقت پولیس کو اوپر سے حکم ملا کہ گرفتاریاں شروع کرو۔میں پولیس آفیسر(ٍٍSP)کے پاس ہی تھا اس نے پولیس کو حکم دیاکہ مجھے گرفتارکر لیں۔میں نے تعجب کیا اور پولیس آفیسر سے احتجاج کیا کہ سر میں تو ہنگامہ کنٹرول کرنے میں مشغول رہا۔آپ کو چاہئےکہ میری کار کردگی کو دیکھتے ہوئے امن ایوارڈ دیں الٹا آپ مجھے گرفتار کر رہے ہیں۔آفیسر نے کہا،اسی لیے تو آپ سے خصوصی سلوک کر رہے ہیں کہ آپ پر تشدد نہیں کر رہےورنہ دوسرے لوگوں کی حالت دیکھ لو،کیسی پٹائی ہو رہی ہے۔میرے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔خاموشی سے پولیس آفیسر کی جیپ میں بیٹھ گیا۔میرے علاوہ دوسرے لوگوں کو ٹرکوں میں گھسیڑ رہے تھے۔یہ ایک لمبی اور دلچسپ داستان ہے جو میرا بیان کرنا اصل مقصد نہیں۔بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ واقعہ سبب بنا میرے خلاف ایف آئی آر کا۔سنٹرل جیل لاہور میں کچھ دن رہنا پڑا۔پھر ضمانت ہو گئی۔اس کے بعد کیس چلتے رہے۔جمعیت اہلحدیث نے حکومت پنجاب پہ بم دھماکہ کا کیس کیا ہوا تھا۔حکومت نے جمعیت کے کارکنوں پہ کیس کیے ہوئے تھے۔ہنگامہ آرائی وغیرہ کے الزام میں حکومت آئے دن ہمارے جیسے کارکنوں کو عدالت میں گھسیٹنے کے چکر میں سمن یا وارنٹ جاری کرواتی رہتی۔پولیس ہمیں بہت تنگ کرتی۔میرا شہر لاہور سے200کلومیٹر دور تھا۔میرا چھوٹا سا کاروبار کافی متاثر ہوا تھا۔حکومت کا خیال تھا کہ جمعیت حکومت سے کیس اٹھائے تو ہم بھی کارکنوں کے کیس ختم کریں۔ہم جیسے غریب کارکن مصیبت میں تھے۔کیس ختم ہوتے نظر نہ آ رہے تھے کہ اسی اثنا یعنی1987ءمیں ہم باہر چلے گئے۔ایف آئی آر کے کاغذ کو میں نے دو تین بار پڑھااور اللہ کے فضل سے میری مشکل حل ہوتی نظر آنے لگی۔میں نے وکیل سے مشورہ کیا۔یہ میرا جینوئن کیس ہے اور واقعی حکومت ہمیں پریشان کرتی تھی۔ہمارے کیس ختم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور اس وجہ سے کافی مشکلات بھی تھیں۔قصہ مختصر وکیل نے اس کیس کی بنا پر میری شہریت کے لئے درخواست دے دی۔تو یہ کیس یورپ میں میری شہریت کے لئے درخواست دائرکرنے کا سبب بنا۔

سچ تو یہ ہےکہ پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بنیاد پر مجھےشہریت کی درخواست دینی پڑےگی، میرا کیس مضبوط ہونے کی وجہ سے تقریبا دو سال چلتا رہا وگرنہ بوگس کیس تو چھ ماہ بھی نہیں نکالتے۔دو سال کے بعد حکومت نے میرا کیس مسترد کر دیا۔تمام ثبوت موجود ہونے کے باوجود کہہ دیا کہ ہم اس کیس پر سیاسی سٹے نہیں دے سکتے۔مگر اپیل کا حق بہرحال انھوں نے دے دیا۔اپیل دائرکی۔تقریباچھ ماہ بعد وہاں سےبھی کیس مسترد ہو گیا۔ایک اور آخری اپیل باقی تھی۔اسے بھی تقریبا چھ ماہ ہو گئے تھے کہ حکومت نے اسی دوران ا علان کر دیا کہ عام امیگریشن کھولی جاتی ہے اور فلاں فلاں شرائط کے حامل لوگ شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔

مثلا درخواست گزار میاں بیوی ہوں،بچے ہوں،کیس زیر سماعت ہوں،تین سال بیت گئے ہوں۔بیکاری الاؤنس نہ لیا ہو،کسی جرم میں جیل نہ گئے ہوں۔کوئی برنس مین انہیں مستقل کام کی گارنٹی دے وغیرہ وغیرہ۔ہم نے ان سب شرائط پہ پورا اترتے ہوئے شہریت کی درخواست کے لئے تیاری کر لی۔جس دن ہمیں پہلا کارڈ شہریت کا ملنا تھا،میں اور میری بیوی داخلہ آفس پہنچ گئے۔وہاں کارڈ لینے کے لئے 3کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں۔اتفاقا ہمارا نمبر سب سے پہلے آ گیا۔کاؤنٹر پہ بیٹھی ہوئی عورت نے ہم سے باری باری سب پیپر مانگے۔ہم دیتے گئے۔کاغذات مکمل چیک کرنے کے بعد اس نے تصاویر مانگیں اور کارڈ نکالا۔اسی اثنا میں ان کی باس آگئی جو غالبا کیمرہ سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔وہ تینوں کھڑ کیوں والی آفس کی عورتوں کو بلا کر تھوڑا دور لے گئی اور میٹنگ کرنے لگی۔ہمیں شک ہوا کہ جیسے ہمارے بارے میں بات چیت ہو رہی ہو۔دس منٹ بعد وہ عورتیں واپس آکر بیٹھ گیں۔جو عورت ہمارا کیس ڈیل کر رہی تھی،اس نے ہماری فائل بمعہ تصاویر کے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا کیس مسترد کیا جاتا ہے۔میں نے پوچھا، کیوں؟کہنے لگی بس مسترد کیا۔ہم نے کہا کہ جو کاغذات آپ نے ڈیمانڈ کئے،ہم نے پورے کر دیئے۔اب کیا مسئلہ ہے۔کہنے لگی کہ بس آپ چلے جائیں ۔آپ کو شہریت نہیں ملنی۔ہمارے بھائی صاحب نے کہاکہ ان سے جھگڑا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔وکیل ہی کرنا پڑےگا۔ہم واپس آ گئےتو بعد ہمیں معلوم ہوا کہ جو باس ان کی آئی تھی،وہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھی۔اس نے تینوں عورتوں سے کہاتھا آپ امیگریشن دینے کا افتتاح کن لوگوں سے کر رہے ہو۔دونوں میاں بیوی فرانس آئے ہوئے3سال ہو گئے ہیں۔مرد کی داڑھی ابھی تک پوری ہےاور عورت بھی ابھی تک برقعے میں چھپی ہوئی ہے۔ایسے لوگوں کو یورپ کی شہریت دینی چاہیے؟وغیرہ وغیرہ۔

پھر وکیل کے پاس پہنچ گئے۔وکیل بھی کافی حیران ہواکہ یہ کیا ماجرا ہے۔مجھے کہنےلگاکہ تمہاری قسمت کیسی ہے؟کبھی آپ تیار نہیں ہوتے تھے،اب یہ صورت حال ہے کہ حکومت تمہیں شہریت دینے کے لئے تیار نہیں۔تمہارا سیاسی کیس بھی مضبوط تھا۔آپ نے تمام ثبوت پاکستان سے منگوا لئے تھے۔اب ان کی تمام شرائط مکمل ہیں حالانکہ جن کی دو چار چیزیں کم ہوں،ان کو بھی وقت دے دیتے ہیں کہ تیار کر لو۔ایک دو رہ بھی جائیں تو معاف کر دیتے ہیں۔مگرتمہارا تو ہر معاملہ ہی الٹ ہے۔تمہارا بھائی میرا دوست ہےاور میں ہی آپ کا فیملی وکیل ہوں مگر آپ لوگوں نےتو میرا تیل نکال دیا ہے۔کہنے لگا کہ اصل وجہ یہ ہےکہ تم دھاڑی چھوٹی کرواؤ اور تمہاری بیوی برقعہ ختم کر کے صرف حجاب (چہرا ننگا)کرلے۔تو اس سے ہمیں شہریت مل جائے گی؟کہنےلگے،مجھے امید ہے کہ پھر تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔میں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم یہ کام کریں۔اگر ہم یہ گناہ کر بھی لیں تو تمہارا کیا خیال ہے حکومت آئندہ اس سے بڑی فرمائش نہ کرے گی۔

مثلاً مجھے کہے کہ دھاڑی بالکل منڈوا دو اور میری بیوی سے کہے کہ حجاب بھی ختم کر دو۔تو پھر کیا خیال ہے؟میری بات سن کر وکیل خاموش ہو گیا۔(جیسا کہ آج کل فرانس میں یہ قانون پاس ہو گیا ہےکہ عورتیں نہ تو برقعہ پہن سکتی ہیں اور نہ ہی رومال لے سکتی ہیں)وکیل سے یہ گفتگو آج سے20سال پہلے کی ہے۔بہرحال وکیل نے اس کیس کو چیلنج سمجھ کرقبول کر لیااور کہا کہ آپ صرف اپنا ڈومیسائل تبدیل کر لیں اور دوبارہ اس وزارت داخلہ کے سب آفس میں نہیں جانا جہاں تمہارا کیس مسترد کیا گیا ہے۔ہم کے کسی اور شہر کا ڈومیسائل لے لیا تو وکیل نے کیس دائر کیا اور خوب کیس لڑااور ہمیں شہریت دلوا کر دی۔

اب میں ان لوگوں کا تذکرہ کروں گا جو کہ شہریت حاصل کر کے یورپ میں رہنا چاہتے ہیں۔ یورپ درج ذیل بنیادوں پر لوگوں کو دیر یا بدیر شہریت دے ہی دیتا ہے۔

(1)عام امیگریشن دینے کے اعلان کے ذریعے
(2)سیاسی بنیادوں پر
(3)ایمان اسلام کے بدلے
(4)وطن فروشی کے بدلے
(5)توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے عوض
(6)جاسوسوں اور ایجنٹوں کے لئے
(7)کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے بزنس مین کے لئے
(8)کرپٹ سیاست دان اور بیورو کریسی
(9)متعلقہ یورپی ملک میں شادی کے ذریعے
(10)بوگس شادی ظاہر کرنے پر۔

اور اب ان کی تفصیل

1- عام امیگریشن دینے کے اعلان کے ذریعے
امیر یورپین ملک کم ہی کھولتےہیں۔مثلا فرانس،جرمنی،اسپین،انگلینڈ وغیرہ مگر پھر بھی ایک فار میلٹی کو پورا کرنے کے لئے15یا20سال کے بعد شہریت کھول دیتے ہیں۔یہ ان لوگوں کے لئےکھولتے ہیں جو عرصہ درازسے ان ملکوں میں چوری چھپے(Illegal)رہ رہے ہوتے ہوں یعنی بے کاری الاونس نہ لیا ہو،ان کو کڑی شرئط یا نرم شرئط پر شہریت مل جاتی ہے۔
2- سیاسی پناہ:
کسی معتوب جماعت سے اپنا تعلق ظاہر کر کے یہ سٹے لیا جاتا ہے۔سب سے مضبوط کیس قادیانیوں کا ہے۔خاص کر جرمنی مرزائیوں کے کیس مسترد نہی کرتا۔ہر مرزائی کو جرمنی کی شہریت مل جاتی ہے۔جرمنی کا ایک بڑا شہر فرینکفرٹ مرزائیوں کا شہر ہونے میں مشہور ہے۔انہیں اپنے مذہبی معاملات،عبادات وغیرہ کی مکمل آزادی ہے۔جرمنی کے بعد انگلینڈ کا نمبر آتا ہے۔یہاں مرزائیوں کا خلیفہ پنجم مرزامسرور خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔وہ وہیں سے تمام دنیا میں ڈش کے ذریعے مرزائیوں سے خطاب کرتا رہتا ہے۔مرزائیوں کا چینل 24 گھنٹے پروگرام پیش کرتا ہے،پاکستان میں تقریبا مرزائیوں کے ہر گھر میں ڈش لگی ہوتی ہے۔
3- ایمان و اسلام کے بدلے:
مسلمانوں سے عیسائی بن کر مرتد ہونے والے، اسلام کے خلاف بکواس وبغاوت کرنے والے، تسلیمہ نسرین وغیرہ کی طرح کے لوگوں کو فورا شہریت دی جاتی ہے یا بدنام زمانہ صائمہ ارشد کیس میں عاصمہ جہانگیر کیNGOs کی کوششوں سے صائمہ اور اس کے شوہر کو چند ددن کی کوشش سے پاکستان سے نکلوا کر یورپ کی شہریت دلوا دی۔ایک اور تازہ واقعہ بھی اسی کی مثال ہے۔گزشتہ دنوں برطانیہ میں رہنے والے مفرور سعودی شہزادے نے اپنے ملازم کے ساتھ ہم جنس پرستی کی اور پھر تشدد کے بعد اسے قتل کر دیا۔برطانوی عدالت نے اسےعمر قید کی سزا دی اصل میں برطانیہ نے سعودی شہزادے کو سزا ئے موت سے بچایا ہے کیونکہ اگر شہزادہ سعودی عرب کو واپس کیا جاتا تو اسے ہم جنس پرستی کے جرم میں سزائے موت دی جاتی۔ اخبار میں یہ بھی ہے کہ شہزادے نے برطانیہ سیاسی پناہ کی درخواست بھی دی ہے۔ غرض یہ یورپین حکومتیں اخلاقی جرائم میں ملوث لوگوں کو بھی فورا ًشہریت دیتی ہیں۔
4- وطن دشمنی و وطن فروشی کے عوض:
ان میں بڑے بڑے نام نہاد لیڈر ٹائپ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو پناہ دینے میں انگلینڈ خاص بدنام ہے۔ایسے لوگوں کو پناہ دے کر ان کی اینٹی اسلام وپاکستان تربیت کی جاتی ہے۔ انہیں خاص وقت کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔پھر جب کفار کے مطلب کی زمین ہموار ہو جاتی ہے تو انہیں پاکستان میں وزیر اعظم یا صدر کی صورت میں لانچ کرکر دیا جاتا ہے۔
5-توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے عوض :
ان میں زیادہ عیسائی ہوتے ہیں جو گاہے بگاہے توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں،قرآن مجید کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں،اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں،مساجد کو آگ لگاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو بھی یورپ میں فورا شہریت دیتے ہیں۔اس ضمن میں تازہ واقعہ آسیہ بی بی کا ہے چک نمبر3 اٹاں والی ضلح ننکانہ کی رہنے والی اور اپنی سگی بہن کی سوکن ہے۔اس کے شوہر عاشق مسیح نے پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی(سالی)آسیہ سے شادی کی۔آسیہ نے نبی اکرمﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں دیں اور نکاح کے متعلق بھی نازیبا گفتگو کی۔قرآن کو کلام الٰہی ہونے کے حوالے سے توہین آمیز کلمات کہے۔آسیہ کے کیس کے پیچھے ایک مضبوط لابی تھی آسیہ نے 3 وکیل تبدیل کیے اور ضمانت کے وقت10 وکیل موجود تھے۔ (ملعون ٹیری جونز والا واقعہ بھی اس تحریر کے بعد ہو چکا ہے۔)
6- جاسوس یا ڈبل ایجنٹ:
ایسے لوگ جو پاکستان اور دینی جماعتوں کی جاسوسی کر کے فوجی راز چرا کر دیں،اہم فوجی مراکز سے متعلق معلومات،تصاویر،وڈیوبنا کر دیں۔انہیں فوری شہریت اور دیگر مراعات ملتی ہیں۔
7- بزنس مین:
جو کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کریں۔مثلا فیکٹری کارخانہ لگائیں یا بڑا ریسٹورنٹ بنا لیں۔
8- کرپٹ سیاست دان اور بیورو کریسی:
اکثر بیورو کریٹس جنہوں نے دل کھول کر پاکستان میں کرپشن کی ہو اور اربوں کمائے ہوں،اپنی دولت کا بیشتر حصہ غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک کے خفیہ اکاؤنٹس میں منتقل کیاہو،کفار کے ملکوں میں مہنگی جائیدادوں کی شکل میں محل،لگثری فلیٹ وغیرہ خریدتے ہیں،ان میں سے بھی بہت سے بیوی بچوں کے چکر(شادی)میں نہیں پڑتے تاکہ آسانی سے اپنی لوٹی ہوئی دولت عیاشیوں، بدمعاشیوں پر لٹا سکیں۔کفار کی حکومتوں کے پاس ان سب کی فائلیں بنی ہوئی ہیں۔اتنی معلومات ان کو اپنے متعلق نہیں ہوتیں،جتنی ان کی فائل میں تفصیل سے درج ہوتی ہیں۔کفار نے ان کو ڈبل شہریت(Nationality)دی ہوتی ہے تاکہ اپنے مطلب کے کام لئے جا سکیں۔جیسے شوکت عزیز،معین قریشی وغیرہ۔جب چاہتے ہیں، ان کومعین مدت کے لئے وزیراعظم وغیرہ بنا کر پاکستان پر مسلط کر دیتے ہیں۔مطلب نکل جانے کے بعد انہیں واپس اپنے ملکوں میں بلوا لیتے ہیں(یعنی جتنا اسلام و پاکستان کے خلاف کام لینا ہو)جب عوام شور کرتے ہیں اور ان کے جرائم کی خبریں میڈیا پر آتی ہیں،تو ئمۃ الکفر بڑے سکون سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ ہم ان کو کیوں پکڑیں۔انہوں نے تو ہمارے ملک میں کوئی جرم نہیں کیا۔اس طریقہ سے کافر ممالک انہیں اپنے ملک میں رہنے کا محفوظ راستہ دیتے ہیں اور اسلام و پاکستان کے مجرموں کی مکمل پشت پناہی کرتے ہیں چیمپئن بنتے ہیں انسانی حقوق اور امن کے۔بہرحال قانونی طور پر یورپ کے بیشتر ملکوں کی شہریت لینے والےڈبل نیشنلٹی رکھ سکتے ہیں،یعنی پاکستان کے ساتھ فرانس کی بھی یا جرمنی اور اسپین کی بھی۔
9- اصلی شادی کر کے بغیر سیاسی سٹے اپلائی کرکے بھی شہریت مل جاتی ہےمگرگھناونی شرائط کے ساتھ:
جس لڑکے یا لڑکی کے پاس پہلے سے ہی یورپ کے کسی بھی ملک کی شہریت ہے،اس سے شادی کرنے سے دو یا تین سال کے اندر کچھ شرائط کے ساتھ شہریت مل جاتی ہے۔اب یورپین حکومتیں دن بدن شرائط سخت کرتی جا رہی ہیں۔باہر سے آنے والے مرد کو خاص طور پر پابند کیا جاتا ہے اب آپ یورپ آ گئے ہو،ہماری زبان سیکھواور اگر لڑکی غیر ملکی ہے تواسے بھی زبان لازمی سکھاؤ تاکہ آپ لوگ ہمارے ملک کا کلچر آسانی سے (ِAdopt)کر سکو۔اپنی بیوی کو پردہ نہیں کروانا، اسے آزادی دینی ہے۔گھر میں بند نہیں رکھنا۔نہ اسے مارناہے نہ ہی اس پہ سختی کرنی ہے۔آپ کے بچے آپ کی نگرانی میں مگر ان سے سلوک یہاں کے ماحول کے مطابق کرنا ہو گا۔ان سے سختی مار پیٹ نہیں کرنی ہے۔یہاں پیدا ہونے والے بچے ہمارے(ملک کے)بچے ہیں۔نگرانی بھی صرف سولہ سال تک کرنی ہے۔اس عمر کے بعد آپ اپنے بچوں پر کسی بھی قسم کی اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے۔مثلا سولہ سال کے بعدآپ اپنی بیٹی،بہن کو کسی غیر مرد کی بانہوں میں دیکھیں،وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، آپ اعتراض نہیں کر سکتے۔لیٹ نائٹ آئیں تو آپ انہیں ڈانٹ نہیں سکتےسکول کی تعلیم بچوں پہ لازمی ہے۔سکول کی مختلف تقریبات میں بچوں کی شمولیت سے نہیں روکنا۔کسی قسم کا بھی کوئی فنکشن قومی تہوار،مذہبی تہوار،کھیلوں کی تقریبات،ڈانس گانے کی پارٹیاں،سوئمنگ پول میں اکٹھے نہانا،سکول سے باہرمخلوط ٹورز پر جانا،غیر ملک جانا،وہاں ہوٹلوں میں اکٹھے لڑکوں لڑکیوں کا رہنا یا اکیلے اکیلے گھروں میں بطور مہمان مقامی فیملی کے ساتھ رہنا، پکنک پوائنٹ پر گھومنا پھرنا،ایسے کسی بھی کام میں والدین اپنے بچوں پہ پابندی نہیں لگائیں گے۔اگر بچوں نے اس معاملے میں اپنے والدین کی شکایت کر دی کہ وہ روکتے ہیں تو پولیس پہنچ جائے گی۔والدین کو ہر حالت میں اجازت دینا ہو گی ورنہ بچے چھین لئے جائیں گے۔دو واقعات پیش خدمت ہیں۔
ایک گھر میں ہم درس قرآن کے لئے گئے تو وہاں ایک فیملی نے اپنا دکھڑا سنایاکہ ہماری بچی نویں کلاس میں پڑتی ہے اور سکول کی طرف سے بچوں بچیوں کے لئے غیر ملک ٹور کا پروگرام ہے۔ہماری بچی نے بھی سکول کے لئے جانا تھا۔ہم نے اپنی بچی کو بہت سمجھایاکہ وہ سکول میں کوئی بہانہ کر دے مگر اس کا دل جانے کو تھا۔ہمارے روکنے کے باوجود بچی نے سکول میں اپنی ٹیچر سے کہہ دیا کہ میں تو جانا چاہتی ہوں مگر میرے والدین مجھے روکتےہیں۔پرنسپل نے والدین کو کال کی کہ کل سکول حاضر ہوں وگرنہ پولیس کے ذریعے بلوالیں گے۔والدین سکول گئے تو پرنسپل نے سختی سے پوچھا کہ آپ اپنی بچی کو ٹور پہ کیوں جانے نہیں دے رہے۔انہوں نے بہانہ گڑا کہ ہمارے پاس بچے کو دینے کے لئے خرچہ نہیں ہے(کرایہ وغیرہ)پرنسپل نے کہا کہ اپنی تنخواہ کے پیپر لے کر آؤ۔دیکھیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے اور گھر کے اخراجات کیا ہیں۔ہم نے بہانہ کیا کہ پاکستان میں ہماری ماں سخت بیمار ہے،ہم نے کچھ پیسے وہاں بھیج دیئے ہیں۔پرنسپل نے کہا کہ اچھا آدھا خرچہ ہی دے دو۔ہم نے اس سے بھی معذرت کی کہ ہم نے تو پہلے ہی قرضہ اٹھایا ہوا ہے،پیسے نہیں ہیں۔آخر پرنسپل نے فیصلہ کیا کہ سارا خرچ آپ کی بچی کا سکول برداشت کرے گا مگر بچی ضرور ٹور پر جائے گی۔وہ پاکستانی بھائی مجھ سے کہنے لگےکہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔دو دن جانے رہ گئے ہیں۔بچی جوان ہے اور جانے پہ خوش ہے۔ساتھ ایک اور پاکستانی بیٹا تھا۔وہ بھی ہمیں اپنا دکھڑا سنانے لگا۔
یورپ کے مقیم ہونے کے بعد لوگوں کے لچھن
یورپ میں گھناؤنی اور غیر اسلامی شرائط پوری کرنے کے بعد بالآخر جن لوگوں کو امیگریشن مل جاتی ہے تو سب سے پہلے انہیں ایک کارڈ ملتا ہے جس پر مذکورہ شخص کی شناخت بمہ تصویر ہوتی ہے کہ اس کا تعلق کس ملک سے ہے۔ اس کارڈ کی تین ماہ کے بعد دوبارہ تجدید کروانا پڑتی ہے۔ جب حکومت اس شخص سے مطمئن ہو جاتی ہے تو متعدد کارڈ بننے کے بعدتین ماہ کی بجائے پورے سال کا کارڈ ملنے لگتا ہے۔ پھر مذکورہ شخص پانچ سال کے لیے کارڈ اپلائی کرتا ہے۔ پانچ سال کے کارڈ کے بعد دس سال کے کارڈ کی باری آتی ہے۔ دس سال کے کارڈ کے بعد کارڈ ہولڈر نیشنیلٹی(European Passport) کے لیے درخواست دائر کر سکتا ہے۔ یورپین پاسپورٹ خاص خاص لوگوں کو ملتا ہےجن کی طرف سے حکومت بالکل مطمئن ہو جاتی ہے کہ اسکے اصل اسلامی جراثیم مر شکے ہیں۔ جن لوگوں سے حکومت مطمئن نہ ہو، انہیں پاسپورٹ تو دور کی بات، دس سال کا کارڈ بھی نہیں دیتے بلکہ ہم جیسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کہ دو یا تین مرتبہ سال سال کا کارڈ دیا، پھر دو یا تین ماہ کے چکروں میں کر دیا۔ اس کی بھی لمبی تفصیلات ہیں کہ ان کے پیچھے حکومت (کفار) کے کیا کیا مقاصد اور عزائم ہوتے ہیں۔ یہ پھر کبھی ان شاء اللہ۔

یورپ میں تقریباً ہر مرد و عورت کام کرتے ہیں اور ان کی ماہانہ پے سلپ بنتی ہے۔ اگر کسی مرد یا عورت نے چند ماہ قانونی تقاضوں کے تحت کام کیا ہے اور بعد ازاں اسے کہیں کام نہیں مل رہا تو ایسے افراد کو حکومت کے ادارے پے سلپ دیکھ کر بے کاری الاؤنس دیتے ہیں۔ اس دوران کام کرنا جرم ہوتا ہے۔ اگر کام مل جائے تو بے کاری الاؤنس ختم ہو جاتا ہے۔ بےکاری الاؤنس تنخواہ کے تقریباً اسی فیصد کے مطابق لگ جاتا ہے۔ جو کہ ہر ماہ ملتا رہتا ہے۔ یہ تقریباً اٹھارہ ماہ ملتا رہتا ہے جو پھر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یورپ میں جانے والے غیر ملکی تقریباً٪100 مقامی ملکوں کی زبان سے نا واقف ہوتے ہیں۔ فرانس، بلجیئم کی سرکاری زبان ایک ہی ہے یعنی فرنچ اور جرمنی کی ڈچ۔ ایسے ہی اٹلی، اسپین، ہالینڈ، انگلینڈ سب کی اپنی اپنی زبانیں ہیں۔ انگلینڈ میں رہنے والے غیر ملکیوں خاص کر برصغیر کے ان لوگوں کو فائدہ ہے جو انگلش میں بات چیت کر لیتے ہیں وگرنہ انگلینڈ کے علاوہ ملکوں میں جانے والے غیر ملکی جتنے مرضی تعلیم یافتہ ہوں، انگلش میں ماسٹر کیا ہویا PhD کی ہو، ڈاکٹر ہو یا کچھ بھی ہو، سب سے پہلے مقامی زبان سیکھتے ہیں۔ پھر کسی دفتر کی جاب مل سکتی ہے۔ جب تک متعلقہ ملک کی زبان نہیں آتی، انہیں پھر صرف مزدوری ہی ملتی ہے۔ بلڈنگ کے کام کی مزدوری میں تھوڑی بہت زبان آنی چاہئے ورنہ مزدوری بھی نہیں ملتی۔ اتنی زبان غیر ملکی جان ہی جاتے ہیں۔ خال خال ایسے بھی ہیں کو اس ملک کی زبان سکول میں مکمل سیکھ کرڈاکٹر، انجینئریا دفاتر میں جاب پہ لگ جاتےہیں۔

کچھ غیر ملکی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ تھوڑی بہت زبان سیکھ کر اپنا بزنس بھی شروع کر لیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ ہفتہ دار بازاروں میں سٹال وغیرہ لگا لیتے ہیں۔ چند ایک اپنی دکانیں بھی بنا لیتے ہیں یا کنسٹرکشن سے متعلقہ کمپنی کھول لیتے ہیں۔ پاکستان سے جانے والی اکثر عورتیں نوکری نہیں کرتیں یا مرد اپنی بیوی کا نوکری کروانا معیوب سمجھتے ہیں مگر نئی نسل جو یورپ کی پیدئش والی ہے، وہ نوکری کرنے کو پسند کرتی ہے۔ حیرانی کی بات ہی ہے کہ ہمارے نام نہاد مسلمان و دیگر غیر ملکی اکثر نوکری بھی کرتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ بے کاری الاؤنس بھی لیتے ہیں۔ بے کاری الاؤنس کے ساتھ نوکری قانونی نہیں ہوتی یعنی اس کی پے سلپ نہیں بنتی کیونکہ یہ غیر قانونی کام ہوتا ہے۔ بعض لوگ اپنی عورتوں کے لیے جعلی پے سلپ بنوا کر بے کاری الاؤنس لیتے رہتے ہیں۔ موجودہ مالی بحران میں بھی یورپ کے امیر ملکوں مثلاً فرانس،اسپین، جرمنی وغیرہ میں اس وقت مزدور کی ایک دن کی تنخواہ تقریباً8تا 12ہزار روپیہ ہے۔ تو مہینے کی خود اندازہ لگا لیں اور پھر بے کاری الاؤنس اپنی بیوی کا بھی شامل کر لیں اور اگر بچے جوان ہیں ، نوکری والے بھی ہیں تو وہ بھی شامل کر لیں تو لاکھوں روپیہ مہینہ بن گیا۔ یوں پاکستان میں جائیدادیں تو بنیں گیں۔ پاکستان والے بھی خوش اور خود بھی خوش۔ جس کسی کو بھی یورپ کی نیشنیلٹی (شہریت) مل جاتی ہے، وہ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو مستقل یورپ بلوا سکتا ہے۔ اس کے اہل خانہ کو بھی شہریت مل جاتی ہے۔ بچوں کی عمر 16 سال سے کم ہونی چاہیے مگر عمر کے معاملہ میں ہمارے دفتروں میں کیا کچھ نہیں ہوتا ۔ بوڑھے کو بچا بنا دیں یا بچہ کو بوڑھا ظاہر کر دیں۔ سب چلتا ہے۔

بہت سے لوگ اپنے بیوی بچوں کو یورپ بلا لیتے ہیں۔ اکثریت لوگوں کی وہ ہے جو شادی شدہ نہیں ہوتی یا بیوی بچوں والے ہوں تو بھی وہ ان کے بغیر ہی یورپ میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ سال دو سال یعنی ایک دو ماہ کیلئے پاکستان بچوں کے پاس آ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر کہا جائے کہ آپ کو شہریت مل گئی ہے تو آپ اپنے اہل خانہ کو بھی بلوا لیں، ان کو بھی شہریت مل جائے گی اور فیملی بھی اکٹھی ہو جائے گی، کہتے ہیں چھوڑو جی، اتنے گندے ماحول میں بیوی بچوں کو بلوالیں۔ استغفراللہ اور یہ پوچھا جائے کہ بھائی آپ بھی تو اس گندے ماحول میں رہ رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ مردوں کی تو خیر ہے جی (مردوں کو اجازت ہے جیسے مرضی زندگی گزاریں) ایسے لوگ جو سال ہا سال سے یورپ میں رہ رہے ہیں، وہ کنوارے ہیں یا شادی شدہ لیکن ان کی بیویاں پاکستان میں ہیں، ان کی اکثریت زیادہ پیسہ عیاشی بد معاشی پہ خرچ کر دیتی ہے۔ ایک فیصد ہی بمشکل ایسے ہوں گے جو بد کاری میں نہیں پڑتے۔

میں اس ماحول کو دیکھتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ جو لوگ زنا سے بچے ہوئے ہیں، ان پہ اللہ تعالٰی کا خاص فضل ہے۔ جن کی فیملی یورپ میں ہے یعنی بیوی ساتھ ہونے کے باوجود بھی بہت سے لوگ گند میں منہ مارنے سے پرہیز نہیں کرتے، وہ اسے اسٹیٹس سمجھتے ہیں۔ جو مرد زیادہ پیسے کمانے والے ہیں یا ان کی عادت زیادہ لٹانے کی ہے تو انہوں نے مستقل گرل فرینڈز رکھی ہوتی ہے۔ پھر فخر سے ان کے ساتھ گھومتے ہیں۔ وہ عورتیں بھی پاکستانیوں سے بہت خوش ہوتی ہیں کیونکہ یورپین مردوں عورتوں کی آپس کی دوستی میں رقم لٹائی نہیں جاتی۔ وہ سب کچھ کر گزریں گے مگر کھانے پینے کا خرچ اپنا اپنا، ایک دوسرے کو کافی تک نہیں پلاتے مگر ہمارے لوگ تو اس مقولہ پہ عمل کرتے ہیں کہ پسند سجناں دی، خرچ ساڈا۔ تو پھر یورپین عورتیں ہمارے لوگوں سے خوش نہ ہوں تو اور کیا؟ ایک دوسرے پر پیسہ خرچ نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر ہر کوئی کام کر رہا ہے۔ شوہر بھی، بیوی بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں تو فیملی بننے کی وجہ سے ایک دوسرے پر پیسے خرچ کر لیتے ہیں مگر جو دوست بنے ہوتے ہیں، ان میں رواج نہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنی اپنی پسند کا کھاؤ اور اپنی پاکٹ کو دیکھتے ہوئے تا کہ کسی کو بھی گلہ شکوہ نہ ہوکہ فلاں کو اتنا کھلا دیا، کام پھر بھی نہ بنا۔ کھانا کھلانے پہ قارئین کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ اچھی طرح ان کا کلچر سمجھ جائیں گے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیاتھا کہ بہت سے لوگ اتوار بازاروں میں اسٹال لگاتے ہیں۔ یورپ میں سارا ہفتہ ہر روز ہفتہ وار بازار لگے رہتے ہیں۔ میرا بھی جوتوں کا اسٹال تھا، رمضان آگیا روزہ افطار کرنے کے وقت ہر مسلمان دکان دار نے حسب استطاعت کوئی نہ کوئی چیز کھانے پینے کے لیے ایک جگہ اکٹھی رکھ لی کہ مل کر کھانے میں برکت ہے اور مل کر افطار کرنے سے خوشی بھی ہوتی ہے۔ ہم چار ہی پاکستانی دکان دار تھے۔ ہم افطاری کر رہے تھے تو ایک ادھیڑ عمر یورپین عورت جو ہم سے چیزیں خریدتی تھی، وہ قریب سے گزر رہی تھی اور ہمیں بار بار دیکھ رہی تھی۔ مجھے ایسے کھاتے شرم سی محسوس ہوئی۔ میں نے اس عورت کو صلح مار دی تو وہ آئی، اس نے کیلا مالٹا، ایسی دو تین چیزیں کھائیں اور بار بار ہماری طرف دیکھتی تھی یعنی ہر چیز اٹھانے سے پہلے۔ میں نے بھی حیران ہو کر پوچھا کہ آپ کھاتی کھاتی ڈر کیوں رہی ہیں، کہنے لگی کہ مجھے ڈر ہے کہ آپ لوگ مجھ سے پیسے تو نہیں مانگیں گے۔ میں نے کہا، نہیں۔ ہم ایسا کیوں کریں گے، یہ تو ہمارے لیے بہت شرم کی بات ہو گی کہ دعوت بھی دیں اور جو کھلایا ہے، اس کے پیسے بھی مانگیں۔ یہ تو میں نے اسلام کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آپ کو دعوت دی، آپ قریب سے گزر رہی تھیں اور ہماری طرف دیکھ رہی تھیں۔ کہنے لگی، میں تو روزانہ سودہ سلف لینے آتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ آپ میں سے چند لوگ چیزیں لے آتے ہیں مگر لوگوں کو بھی دعوت دیتے رہتے ہیں، کئی لوگ آپ کے ساتھ مل کر کھا لیتے ہیں۔ انہوں نے تو کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا ہوتا۔ آپ انہیں مفت میں کھلا دیتے ہیں، مجھے بھی کھلا رہے ہیں۔ کہنے لگی کہ روزانہ آیا کروں کھانے کیلئے۔ میں نے کہا کہ جب تک رمضان ہے، ہم ایسے ہی افطاری کریں گے۔ آپ بھی کھا لو تو کوئی حرج نہیں۔ ہنس کر کہنے لگی" آپ میں سے کسی کا پروگرام تو نہیں میرے ساتھ پیپر میرج کا"۔

ہم نے کہا کہ ہم سب کے پاس شہریت ہے۔ ہم کسی لالچ سے نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں۔ پھر میں نے اسے اسلام کے متعلق چند باتیں بتائیں۔ خاص کر اکٹھے کھانے اور جوائنٹ فیملی سسٹم کے بارے میں تو وہ بہت خوش ہوئی۔ کہنے لگی کہ اسلام کا مطالبہ کروں گی خاص کر یہ مفت میں کھلانے والی بات کا۔ ہمارے ہاں تو کوئی کسی کو ایک پیسہ بھی نہیں کھلاتا۔ میں بات کر رہا تھا کہ یورپین عورتوں کو تو ایسے گندے لوگ چاہئیں جو زنا بھی کریں اور ان پر پیسا بھی لٹائیں اور ان کے نخرے بھی اٹھائیں۔ یورپین عورتیں آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں کہ آج کل کس ملک والا یار چل رہا ہے تو پھر ایک دوسرے سے کہتی ہیں کہ پاکی والے پھنساؤ، خوب عیش کرواتے ہیں اور ہماری مزدوری کرنے سے بھی جان چھوٹی رہتی ہے۔ بات میں یہ کر رہا تھا کہ زیادہ مال لٹانے والوں نے اپنی اپنی گرل فرینڈز رکھی ہوتی ہیں، جو کم مال لٹانے والے ہوں یا کم پیسے خرچ کرنے والے ہوں، جن کی ضروریات پاکستان میں زیادہ ہیں، وہ مرد حضرات ایک ایک کمرہ میں دس دس افراد تک رہ رہے ہوتے ہیں۔ اسی کمرہ میں سونا، وہیں کھانا وغیرہ پکانا اور ٹوائیلٹ وغیرہ سب کمرے والوں کا مشترک ہوتا ہے۔ یہ بھی ویک اینڈ پہ کوئی نہ کوئی گئی گزری عورت لے ہی آتے ہیں اورساری رات بے شرمی سے ایک ہی کمرے میں منہ کالا کرتے ہیں۔ شاید انہیں جیسی عورتوں اور مردوں کی وجہ سے پاکستان میں بھی ایڈز پھیل رہی ہے۔ اس لئےباہر سے آنے والے لوگوں سے دیکھ بھال کر شادی کرنی چاہئے کیونکہ اکثریت شراب، زناکی عادی اور حرام گوشت کھانے والی ہوتی ہیں یا ایمان کو بیچنے والے سیاسی سٹے والے لوگ ہوتے ہیں۔

پندرہ سال میں میرا زیادہ کام یورپ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا رہا ہے۔ الحمداللہ۔ اپنے سب ملنے والوں کو میں ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ جو لوگ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کو نہ چھوڑتے، ان سے کھلی بات کرتا کہ برائی سے رک جائیں، آپ یہاں یورپ میں رہ رہے ہیں تو آپ کسی کی امانت ہیں۔ امانت میں خیانت نہ کریں، ادھر گل چھڑے نہ اڑائیں آپ کی بیوی بھی تو پاکستان میں ہے۔ وہ آپ کی امانت (عزت) کی حفاظت کر رہی ہو گی اور ساتھ دعائیں بھی کر رہی ہو گی کہ اے اللہ میرے شوہر کو ہر برائی سے محفوظ رکھنا۔ اس لئے کچھ خیال کرو۔ ادھر عورتوں کر پھنساتے ہوتو اللہ نہ کرے پاکستان میں کوئی بد بخت آپ کی بیوی کو پھنسانے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر آپ کی امانت میں خیانت ہو جائے۔ میں اپنے بھائیوں کو زنا سے روکنے کے لیےدو ٹوک کھری کھری سناتا تو اکثر غصہ کرتے اور کہتے کہ مولوی صاحب آپ کی جگہ اور ہوتا تو پھر دیکھتے، وہ ایسی بات کیسے کرتا ہے۔ آپ کا لحاظ کرتے ہیں۔ میری بیوی تو بہت نیک ہے، گھر سے بھی کم ہی نکلتی ہے، پردہ وغیرہ بھی ،بازار میں جاتی ہے تو کرتی ہے۔ میں کہتا کہ بھائی اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آپ کی بیوی کو بھی تو اس کی سہیلیاں چھیڑتی ہوں گی کہ تمہارا شوہر یورپ گیا ہوا ہے ۔ وہاں تو ہر موڑ پر گند ہے۔ جدھر مرضی منہ مارو، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے تو تمہاری بیوی یقیناً یہ کہتی ہو گی کہ نہیں نہیں۔ میرا شوہر تو بڑا نیک ہے اور لاکھوں میں ایک ہے۔ مجھ سے وعدہ کر کے گیا تھا کہ کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھوں گا بھی نہیں۔ کبھی کبھی نماز بھی وہاں پڑ لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں وہاں کنوارے مردوں کو کافی تبلیغ کرتا۔ انہیں اس طریقہ سے سمجھا تا کہ بھائی آپ اس برے کام کو چھوڑ دو۔ کل کلاں آپ کی شادی بھی ہونی ہے۔ اگر لڑکی والوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ تو یورپ میں زانی رہے ہو تو یقیناً وہ شادی نہ کریں گے۔ خاص کر لڑکی تو نہ مانے گی۔ بعض کہتے، مولوی صاحب ان کو کیا پتہ، اور یہ بات بھی ہےکہ جب شادی ہو گی تو توبہ کر لیں گے۔ میں کہتا، بھائی آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کتنے دن زندہ رہنا ہے یا توبہ کے لئے آپ کو وقت بھی ملنا ہے کہ نہیں۔ پھر کہتے، اللہ تعالٰی بڑا غَفُوْرٌ رَّحِیْم ہے۔ میں کہتا کہ آپ یہ گوارا کرتے ہیں کہ آپ کی ہونے والی بیوی بھی ایسی ہی ہو، اس کا بھی خیال ہو کہ شادی کے قریب رک جاؤں گی اور توبہ کر لوں گی تو پھر وہ میری اس کھلی بات پر ناراض ہو جاتے۔ پاکستان میں بھی لوگوں کو یورپ کے حالات معلوم ہیں کہ وہاں اکثر لوگ گندے ہوتے ہین، ان کی بیویوں کو بھی معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ ہمارے شوہروں کے یہ لچھن ہیں مگر دولت کی چمک دمک سے وقت پاس ہوتا رہتا ہے۔ کئی عورتیں ایسی بھی بد بخت ہوتی ہیں کہ جو سوچتی ہیں کہ مہینہ دو مہینہ کے لئے آیا ہے چلا جائے گا۔ یہ وہاں عیاشی کرتا ہے میں بھی تو پھر آزاد ہوں جو مرضی کروں۔

آخر میں تمام قارئین سے التماس ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ احباب میں لوگوں کو یورپ کے (ملکوں) کی خرابیوں سے ڈرائیں، بے شک دولت ان ملکوں میں ہے (اگرچہ یہ ممالک بھی اب شدید مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں) مگر ایمان اسلام بچانا بہت ضروری ہے۔ ایمان اسلام والوں کی کفار سے بنتی نہیں۔ ایسے لوگوں کو کفار اپنے ملکوں میں نہیں رہنے دیتے۔ ان کو اپنے ملکوں سے نکال دیتے ہیں۔ میرے یورپ جانے سے پہلے حافظ عبداللہ بہاولپوریؒ سے اچھی دعا سلام تھی۔ وہ یہ بات اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ مسلمان کا یہ کام نہیں کہ وہ ماحول سے متاثر ہو بلکہ مسلمان تو وہ ہے جو ماحول کو متاثر کر دے۔ جہاں بھی جائے، ماحول کو بدل دے۔ اے اللہ تو سب سے بڑا گواہ ہے کہ ہم نے یورپ کے ماحول کو بدلنے کی کوشش کی، اے اللہ تیری ناراضگی میں جو کام ہوا تو اسے معاف فرما دینا اور جو اچھے کام ہوئے، ان کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما لے۔ آمین ثم آمین